LogoDars e Mahdi ATFS

Guzarish e Sureh Fateha

Kalim Haider Sharar

Sayed Kalim Haider Sharar

کلیم حیدر شررؔ۔ بمبئی کے حلقہ ءِ ادب کا ایک بلیغ اور منفرد لہجہ۔ لڑکپن سے ہی شعر گوئی سے شغف تھا، چنانچہ ابتداء میں شریرؔ تھے۔ وقت نے شعلہ بیانی عطاء کی تو شررؔ بن کر گذشتہ صدی کی آٹھویں اور نویں دہائی میں آگ کی طرح چھا گئے۔ کہیں انقلاب، کبھی اردو ٹائیمز، کبھی آج کل تو کبھی دوردرشن۔ اسکے بعد انجمن معجزہ ءِ علی۔ ممبرا، کی تشکیل وقوع پذیر ہوئی اور کلیم صاحب انجمن کے لئے نوحے لکھنے لگے۔ یکم اکتوبر 1951 ء کو گھاٹکوپر، بمبئی میں، گروجی،یعنی جناب سید سبطِ حسن رضوی، (پرنسپل۔ گھاٹکوپر اردو میونسپل اسکول) کے گھر پیدا ہوئے۔ والد سنسکرت اور اردو کے ماہر تھے۔ یہی سبط حسن صاحب ہیں جنھوں نے اردو گرامر اینڈ کمپوزیشن لکھی تھی۔کلیم صاحب نے گودریج اینڈ بوائیس، وکرولی میں ٹیسٹ ٹائیپسٹ کے طور پر ملازمت اختیار کرلی۔ جبکہ 1998 میں کوالیٹی کنٹرول آفیسر کے عہدے پر ملازمت سے دستبردار ہوئے۔ بمبئی کے ہی ایک عظیم شاعرِ اہلبیت، قاضی سید وصی احمد (آوارہ سلطان پوری) صاحب کے داماد تھے۔ 2001, اگست ۲۵ کو حرکت قلب بند ہونےکے سبب دارِ فانی کو الوداع کہا اور بہشت زہرا قبرستان میں مرقدِ خضرہ میں تشریف فرما ہیں، اور ظہورِ امام کے منتظر ہیں۔

Maulavi Sayyed Abdulhameed

Maulavi Sayyed Abdulhameed

مولوی سید عبدالحمید صاحب ابن سید حسن زیدی ۔ایک عالم با عمل اور متقی مبلغ دین گزرے ہیں، آپ موضع پتلا غوثپور ضلع اعظم گڈھ میں پیدا ہوے۔ آپ نے دینی تعلیم غالباً ناصریہ مدرسہ جون پور یا جوادیہ کالج بنارس میں حاصل کی ۔ باوجودیکہ اس زمانے میں سواریوں کی بہت دقت ہوتی تھی پھر بھی آپ مجلس امام حسین علیہ السلام کو خطاب کرنے دور دور تک جاتے اور بغیر اجرت مجلسیں پڑھتے۔اکثر آپ کو ایسی مجلس کو خطاب کرنا پڑتا تھا جہاں فرش، منمبراور تبرک کا احتمام ہوتا مگر مجمع نظر نہیں آتا مگر یوں محسوس ہوت کے یہاں ایک ہجوم ہے۔ بانی مجلس کے اسرار پر وہ نا دکھائی دینے والے مجمع میں بھی مجلس بڑھتے اور غیر مرعی مجمع بلند آواز سے امام حسین پر گریہ کرتا۔ چونکہ آپ بہت متقی و پرہیزگار تھے اسی لیے خداوندعالم نے آپکو روحانی طاقتیں بھی عطا کی تھیں جس کی وجہ سے بہت سی باتیں قبل از وقت آپکو معلوم ہوجاتی تھیں۔ مثلا جس روز آپ کا انتقال ہوا اس کے ایک روز پہلے آپ نے اپنے چھوٹے بھای وحید صاحب کو بلا کر کفن ودفن اور مجلس سویم کے اخراجات دریافت کر کے رقم اپنے بھائی کے حوالے کی اور کہا کہ جلدہی اسکی تم کو ضرورت پڑیگی اور اس کے دوسرے روز ہی انکا انتقال ہوا۔ اس شب کا واقعہ بھی عجیب ہے کے انھوں نے گھر کے افراد سے عید کی رات ہی نئے کپڑے پہن لینے کی خواہش ظاہر کی بالکہ بصد اسرار نئے کپڑے پہن لینے کہا۔ جب گھر والوں نے ان کی خواہش کے مطابق عمل کر لیا تو خوش ہوئے، شاید انھیں یقین ہو گیا تھا کہ کل بقرعید کے دن انھیں نیا لباس پہننا نصیب نہ ہوگا اور اسی شب میں تقریباً ڈیڑھ بجے رات میں راہی ملک بقا ہوگیے انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اسطرح کے دیگر واقعات ہم نے اپنے بزرگوں سے سنے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نگاہ بصیرت رکھتے تھے اور روحانی طاقتیں بھی آپ کے اندر موجود تھیں سچ ہے انسان جب اللہ کی راہ میں اپنا قدم آگے بڑھاتا ہے تو اللہ بھی اسکی مدد کرتا ہے آپکی زندگی کا زیادہ حصہ ممبی میں بھی تبلیغ دین میں خرچ ہوا ہے آپکی اولادیں بھی سب نیک اور دیندار تھیں۔ آپکی سب سے بڑی لڑکی محترمہ فاطمہ بی بی مبارک پور میں ہر سن و سال کی خواتین میں تعلیی رجحان بیدار کرنے میں کامیاب ہوئیں جبکہ اسوقت لڑکیوں کو پڑھانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اسکے علاوہ مجلسوں کو فروغ بھی دیاانھوں نے مجلسوں میں تابوت اٹھانے کارواج قائیم کیا ۔خداوند عالم مرحوم کے درجات کو بلند کرے اور ہم سب کو خدمت دین کرنے اور اسپر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرمائے آمین۔۔کاظمہ عباس

Husain Imam Khan

Husain Imam Khan

مرحوم حسین امام خان ابن مرحوم مولوی "علی امام خان" رنوی " ایک روشن چراغ کی کہانی" مرحوم حسین امام خان رنوی کا بچپن زمینداری کے سادہ مگر باوقار ماحول میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے حاصل کی اور دسویں جماعت تک تعلیم مکمل کی۔ جوانی ہی میں اپنے گاؤں کے پردھان منتخب ہوئے اور اس ذمہ داری کو نہایت دیانت داری، محبت اور خدمت کے جذبے کے ساتھ نبھایا۔ آپ کی زندگی کی دو نمایاں خصوصیات ہر جاننے والے کے دل میں ہمیشہ نقش رہیں: 1. امام حسین علیہ السلام کے مصائب کو کتابوں سے نہایت رقت و سوز کے ساتھ پڑھنا اور سنانا، جس سے سننے والوں کے دل پگھل جاتے۔ 2. اپنے والد (مرحوم مولوی علی امام خان) یعنی ھمارے داداکی خدمت کے لیے اپنی ہر خواہش، ہر ضرورت اور ہر چیز قربان کر دینا، اور ان کی خدمت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز سمجھنا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات اولادوں کی نعمت سے نوازا — تین بیٹے اور چار بیٹیاں۔ ماشااللہ سب کی بہترین جگہ شادی کر کے نہ صرف گھر بسایا بلکہ زندگی بھر ان کی خوشیوں اور کامیابیوں کے لیے دعاگو رہے۔ جب اولاد کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئے تو دو بار ایران اور ایک بار عراق کی مقدس زیارت کا شرف حاصل کیا۔ زیارتوں سے واپسی کے بعد بھی زندگی کا ہر لمحہ اپنے خاندان، رشتہ داروں اور کمیونٹی کی خدمت کے لیے وقف رکھا۔ آپ کے گھر میں مجالسِ حسینی کا باقاعدہ اہتمام ہوتا، مختلف انداز کی مجلسیں اور بہترین تبرک کا انتظام آپ کے ذوقِ خدمت کا عملی ثبوت تھا۔ مگر افسوس، ایک دن اچانک حرکتِ قلب بند ہونے کے باعث یہ چراغ بجھ گیا۔ آپ اس دنیا کو چھوڑ کر دارِ بقا کی طرف روانہ ہو گئے، پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ گئے جو کبھی پُر نہ ہو سکے گا۔ آپ کی یاد، آپ کی دعائیں، آپ کی خدمت اور آپ کا سوز و گداز آج بھی دلوں کو نم کر دیتا ہے۔

Sayed Safdar Husain Zaidi

Sayed Safdar Husain Zaidi

پڑوسی ملک میں ملت تشیع کی سماجی اور سیاسی بیداری کے حوالے سے جب بھی بات ہو گی تو ایک نام نمایاں ہو کر سامنے آئے گا: سید صفدر حسین زیدی۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جن کی زندگی کا مقصد ہی اپنے مسلک اور قوم کی فلاح و بہبود تھا۔ سید صفدر حسین زیدی، جو ضلع مظفر نگر کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ظل حسنین زیدی کے فرزند تھے، ان کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو کسی بھی حال میں اپنی قوم کی سربلندی کے لیے کوشاں رہے۔ زیدی صاحب کی مستعدی اور ملت کے لیے کار آمد فرد کی حیثیت سے خدمات کا اعتراف نہ صرف ان کے حلقہ احباب میں بلکہ قومی سطح پر بھی کیا جاتا تھا۔ بیرونِ ملک میں انہوں نے شیعہ فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری کے طور پر ایک فعال کردار ادا کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تنظیمی امور اور عوامی سطح پر قوم کی نمائندگی کرنے کا بھرپور تجربہ رکھتے تھے۔ مسلکی تشخص پر غیر متزلزل موقف ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو مسلکی تشخص اور قومی وقار کے حوالے سے ان کا غیر متزلزل موقف تھا۔ ایک مشہور واقعہ جو ان کی بصیرت اور قوم کی غیرت کا ترجمان ہے، وہ یہ ہے کہ جب ایک مرتبہ اس ملک کے مشہور اخبار نے ملت تشیع کو "شیعہ برادری" کے لفظ سے مخاطب کیا تو انہوں نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ سید صفدر حسین زیدی صاحب نے اس اصطلاح کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اخبار کا بائیکاٹ کروا کر یہ واضح پیغام دیا کہ شیعہ ایک قوم ہیں، نہ کہ محض ایک برادری۔ یہ واقعہ محض ایک لغوی اختلاف نہیں تھا بلکہ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ ملت تشیع کو ایک مکمل اور فعال قوم کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے۔ ان کا یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی قوم کے سیاسی اور سماجی مرتبہ کو بلند دیکھنے کے خواہاں تھے۔ سید صفدر حسین زیدی کی زندگی کا کینوس بہت وسیع تھا۔ ان کے دوست احباب میں ملک کے مشہور علماء دین بھی شامل تھے اور اہم سیاست دان بھی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مذہبی حلقوں کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی بھرپور اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ وہ ایک پل کا کردار ادا کرتے تھے جو قوم کو فکری رہنمائی اور عملی سیاسی طاقت سے جوڑتا تھا۔ سید صفدر حسین زیدی ایک ایسے ملت ساز رہنما تھے جن کی جدوجہد اور غیرت مندانہ اقدامات آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کی خدمات ملت تشیع کی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔

Qazi Sayed Wasi Ahmed (Awarah Sultanpuri)

Qazi Sayed Wasi Ahmed (Awarah Sultanpuri)

Shaer e Ahlebait AS

ہماری بساط نہیں کہ آ پ کی شان میں کچھ لکھیں۔ آپ ہی کا ایک شعر لکھ رہے ہیں ||||| رو غمِ شبیر میں ائے دل بھلا ہو جائے گا ----- کم سے کم اجرِ رسالت تو ادا ہو جائے گا

Sayed Sibte Hasan Rizvi

Sayed Sibte Hasan Rizvi

Muhibb e Ahlebait (AS)

عالیجناب گھا ٹکوپر اردو میو نسپل اسکول کے پرینسپل تھے۔ اردو اور سنکرت پر پورا عبور تھا۔ اردو گرامرایدنڈ کمپوزیشن کتاب لکھی جسے ممبئی یونیسوسٹی کے نصاب میں شامل رکھا گیا۔Wiladat: 19-08-1919 Wafat: 03-04-1993

Sayed Naseem Haider

Sayed Naseem Haider

Khateeb e Ahlebait AS

انجمنِ مجالسِ حسینؑ کی روایت رہی ہے کہ ہر ماہ کے نوچندی اتوار کو مجلسِ عزا کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ مرحوم جناب پُٹّن مرزا صاحب کے مکان سے شروع ہوا. ان مجالس میں خطابت اور ذاکری کی سعادت مرحوم سید نسیم حیدر صاحب کو حاصل رہی. گزشتہ کئی دہائیوں سے چاندی کے کارخانے، موگرہ ویسٹ میں مجلسیں منعقد کی جاتی ہے۔ ابتدا میں اس مجلس سے مرحوم جناب طاہر جرولی صاحب (طابَ ثَراہ) خطاب فرماتے تھے،روایت رہی ہے کہ محرم کے پہلے عشرے کی دس مجالس دو مختلف مقامات پر منعقد کی جاتی تھیں: جناب محمد حسین صاحب کے مکان (باندرا پلاٹ، جوگیشوری ایسٹ) فاطمید امام بارگاہ (بہرام باغ، جوگیشوری ویسٹ) ان مجالس میں نسیم حیدر صاحب اپنے خطاب کے ذریعے شہدائے کربلا کی یاد کو زندہ کرتے

Sayed Anwar Haider (Naqqan Bhai)

Sayed Anwar Haider

Nauha Khwan e Ahlebait AS

آوارہ صاحب کے صاحبزادے۔ وراثت میں والد کے حسنِ کردار، خُلق و طبع کے علمبردار تھے۔ بیبسی میں بھی حق نما زینب یہ نوحہ اکثر لوگ فرمائیش پر پڑھواتے، نوحہ نویس بھی تھے۔ تاریخِ پیدائیش : 15 مئی 1949 / لقا اہلبیت 27 جولائی 1998

Sayed Shamim Haider

Sayed Shamim Haider

Khadim e Ahlebait AS

بہمن کامپلکس جب جاتے ایک بزرگ شخصیت مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ نماز پڑھنے آنے والوں کا استقبال کرتی دکھائی دیتی، چاہے وہ نماز فریضہ ہو یا نمازِ مودّت۔ یہ شخصیت شمیم بھائی کے نام سے مشہور تھی۔ بہمن بیت الصلاۃ کے خازن و سیکریٹری اور تنظیم المکاتب کے مدرسہ کے معاون بھی تھے۔ سید سبطِ حسن رضوی اور ذاکرہ رئیسہ باجی کی اولادوں میں سے ایک گہر۔ 1 مئی 1947 کو پیدا ہوئے اور 23-نومبر-2019 کو اپنے بچوں کو ولا اہلبیت کی وصیت کرتے ہوئے ان سے ملاقات کو روانا ہوئے۔

Sayed Imtiyaz Haider Taj

Sayed Imtiyaz Haider Taj

Shaer e Ahlebait AS

امتیاز حیدر تاجؔ، جناب سید سبط حسن رضوی کے چھوٹے صاحبزادے، تاجؔ جونپوری کے نام سے جانے جاتے۔ ممبئی کے مشہور قصیدہ گو شعرائے کرام میں شمار ہوتے تھے۔ فروری 4، 1958 / کو پیدا ہوئے اور جولائی 13, 2011 کو دارِ بقا کی طرف گامزن ہوئے۔

Sayed Iftekhar Aazmi

Sayed Iftekhar Aazmi

Shaer e Ahlebait

سید افتخارحسین اعظمی سنہ 1935 میں اتر پردیش کے معروف علاقے اعظم گڑھ کے ایک گاؤں پتلہ غوث پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان مذہبی روایات و نظریات کا حامل تھا اور ان کے والد مولانا سید عبد الحمید صاحب انتہائی دیندار اور متقی عالم دین تھے۔ پورے علاقے میں ان کا شہرہ تھا اور ایک طویل عرصہ انھوں نے بمبئی (ممبئی) میں بھی گزارا۔ افتخار اعظمی نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور اس کے بعد کچھ عرصے تک وہ جونپور اور لکھنؤ کے بعض دینی مدارس میں بھی حصول علم کی تلاش میں گئے۔ اس طرح اردو کے علاوہ فارسی اور کسی حد تک عربی سے بھی آشنا ہو گئے۔ اس زمانے کے ماحول کے زیر اثر اور کچھ فطری رجحان کی وجہ سے بھی وہ جلد ہی شعر کہنے لگے۔ یوں تو انھوں نے شاعری میں کسی بڑے استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہیں کیا لیکن غالب اور اقبال سے بہت متاثر رہے۔ ان کی شاعری میں بہت گہرائی ہے اور اسی کے ساتھ وہ زبان کی صحت پر خاص توجہ دیا کرتے تھے۔ افتخار اعظمی نے جتنی مذہبی شاعری کی، اتنی ہی نظمیں اور غزلیں بھی کہی ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ "کن" کے نام سے سنہ 1977 میں شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ "ان کہی" کے نام سے ترتیب دیا تھا لیکن بوجوہ وہ شائع نہ ہوسکا۔ انھوں نے اہلبیت کی شان میں علامہ اقبال کی لکھی ہوئی بعض فارسی نظموں کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا۔ یہ نظمیں، "قوسین" کے نام سے زیور طبع سے آراستہ ہوئيں۔ ان کے قصائد کا مجموعہ بھی تیار ہے اور خداوند عالم سے دعا ہے کہ وہ بھی جلد از جلد شائع ہو کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچے۔ سنہ 1994 میں ان کا ممبئی میں انتقال ہوا اور وہیں سپرد خاک ہوئے۔ گذری ولائے آل محمد میں اے خدا بخشی جو تو نے عمر یہ اس کا حساب ہے ذیل میں ان کے قصیدوں کے کچھ اشعار پیش ہیں: کون کہہ سکتا ہے یہ احمد مرسل کے سوا حق پسندی کا چلن صرف مرے گھر سے چلا زباں ہی تو کٹے گي، انگلیاں ہی تو قلم ہوں گي؟ چلو پھر آج مدح احمد مختار ہو جائے کھلتے ہی جو غنچے نے لیا نام علی کا منہ چوم لیا بڑھ کے وہیں باد صبا نے نیا لہجہ، نئے تیور، نئے الفاظ کے پیکر قصیدے کا نیا آہنگ ہم ایجاد کرتے ہیں کیا کہا مداح کو خود پر بھروسہ چاہیے جی نہیں، توفیق حق، تائيد مولا چاہیے فطرت دریا بدل دی خالق کونین نے سوئے ساحل لے چلا، کشتی کو طوفان غدیر جب تک نہ ولا دوڑے رگ رگ میں لہو بن کر مدحت کا سفر کیا ہے بس قافیہ پیمائي مداحئ زہرا ہے، آنکھیں رہیں سجدے میں ہے حد ادب قائم، اے جذب تولائي

Sayed Manzar Imam Sahab (Shaeda Gopalpuri)

Sayed Manzar Imam Sahab (Shaeda Gopalpuri)

Shaer e Ahlebait

بہت ہی اچھے شاعر اور ذاکر تھے ان کے نوحے اور قصیدے بہت پسند کیے جاتے تھے انھیں غزل سرائی کا بھی شوق تھا انھوں نے وثیقہ اسکول ضلع فیض آباد سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی وہ ذاکری بھی کرتے تھے مگر شعروشاعری سے زیادہ دلچسپی رکھتے تھے انکے ہم عصر وں میں جناب پیام صاحب اعظمی قزلباش صاحب اور مولانا جناب کرار حسین صاحب وغیرہ تھے خداوند عالم ان تمام لوگوں کے درجات کو بلند کرے ۔ان کے قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔ بن گیے نا اہل سارے زینت دیرو حرم۔ ہم کہاں جاتے اگر یہ میکدہ ہوتا نہیں کیوں غریبوں کے لہو سے سینچی جاتی ہے شراب۔ کیا امیروں کے لہو میں وہ مزہ ہوتا نہیں حضرت بہلول نے جنت نشے میں بیچ دی۔ اب کسی میکش کا دل اتنا بڑا ہوتا نہیں۔ خداوندعالم بہترین اجر عطا فرماے آمین

Sayed Ghayoor Imam (Sahil Gopalpuri)

Sayed Ghayoor Imam (Sahil Gopalpuri)

Shaer e Ahlebait

سید غیور امام صاحب ساحل گوپال پوری۔ یہ منتظر امام شیدا صاحب اور ظہور امام صاحب کے برادر تھے انھوں نے جوادیہ عربی کالج بنارس میں دینی تعلیم حاصل کی اسوقت مولانا سید ظفر الحسن صاحب قبلہ جوادیہ کے پرنسپل تھے غیور امام صاحب انسے بہت مانوس تھے اور ان سے بہت محبت کرتے تھے اور مولانا ظفر الحسن صاحب بھی ان سے ایک خصوصی لگاؤ رکھتے تھے اور انسے بہت محبت کرتے تھے بلکہ اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے یہ انکے ہونہار طالب علم تھے انھیں بھی شاعری سے بہت لگاؤ تھا اور بہت اچھے اشعار نوحے اور قصیدے کی شکل میں پیش کرتے تھے انکا قطعہ پیش خدمت ہے ۔ دین ودنیا میں حیدر ع کے دشمن اپنے ہاتھوں کو ملتے رہینگے۔ اور جبتک ملے انکو دوزخ بغض حیدر میں جلتے رہینگے۔ وحشتیں ہیں انھیں کا مقدر جنکا کوئی سہارا نہیں ہے۔ پڑھ کے ناد علی ہم تو ساحل قبر میں بھی بہلتے رہینگے واقعی عاشقان علی علیہ السلام کی برزخ بھی جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگی

Sayed Zahoor Imam Sahab

Sayed Zahoor Imam Sahab

Zakir e Ahlebait

آپ ایک دیندار گھرانے میں موضع خطیب پور ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوے ۔عالم کمسنی ہی میں باپ کے ساے سے محروم ہوگیے ۔مگر انکی ۔والدہ نے انکی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی انہوں نے مدرسہ ناظمیہ میں دینی تعلیم حاصل کی ۔ وہ ایک اچھے ذاکر تھے اور شاعری کا بھی شوق رکھتے تھے اکثر قصیدے وغیرہ لکھتے تھے انکی زندگی کا زیادہ حصہ دینی مکاتب میں بچوں کو پڑھانے میں گذرا کی سال تک انھوں نے نجفی ہاؤس میں آغا موسوی صاحب کے زیر سرپرستی خدمت دین انجام دیتے رہے انکے اندر کنبہ پروری کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا اپنے عزیزوں کا بہت خیال رکھتے تھے لوگوں کے الجھے ہوے مسلہ کو آسانی کے ساتھ سلجھا دیا کرتے تھے خداوند عالم انکے در جات کو بلند کرے آمین