LogoDars e Mahdi ATFS

🌸 فضیلتِ حضرتِ فاطمہ الزہراء سلامُ اللہ علیہا

🌸 فضیلتِ حضرتِ فاطمہ الزہراء سلامُ اللہ علیہا
کاظمہ عباس | (Kazma Abbas)
ذاکرہ کاظمہ عباس
Zakerah Kazma Abbas

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا فَاطِمَةُ الزَّهْرَاءُ
السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا ابْنَ الزَّهْرَاءِ، سَلَامُ اللہِ عَلَيْهَا، عَجَّلَ اللہُ تَعَالٰى فَرَجَهُ الشَّرِيفَ، أَدْرِكْنِي۔

فضیلتِ زہراء سلامُ اللہ علیہا

قالَ رسولُ اللہِ ﷺ:
فاطِمَةُ بَضعَةٌ مِنی، فَمَن أغضَبَها أغضَبَنی۔
"فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے اُسے غضبناک کیا اُس نے مجھے غضبناک کیا۔"

پیغمبرِ اسلام ﷺ کی اس حدیثِ مبارکہ نے زہراء سلامُ اللہ علیہا کی فضیلتوں کے سمندر کو ایک کوزے میں سمو دیا ہے، کیونکہ اگر شہزادی حضورِ اکرم ﷺ کا ہی ایک ٹکڑا ہیں تو جتنے فضائل و مناقب حضور ﷺ میں ہیں، وہ سب کے سب (سواے رسالت و نبوت کے) جنابِ فاطمہ زہراء سلامُ اللہ علیہا میں موجود ہیں۔

اور خداوندِ متعال نے بھی اپنی کنیزِ خاص کو اپنی طرف سے بہت سے القابات سے نوازا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ القابات انسان کی صلاحیتوں کو دیکھ کر ہی عطا کیے جاتے ہیں۔ انسان کے اندر جتنے صفات و کمالات ہوتے ہیں، اُسی قدر اُسے خطابات ملتے ہیں۔ اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ خطاب دینے والا کتنی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ جس کے پاس جتنی صلاحیت ہوتی ہے، اپنی صلاحیت کے اعتبار سے وہ القاب عطا کرتا ہے۔

اب اگر خداوندِ عالم نے القابات عطا کیے ہیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہزادی فضائل و مناقب کے کس درجے پر فائز ہیں۔

نورِ زہراء سلامُ اللہ علیہا

جنابِ زہراء سلامُ اللہ علیہا کی فضیلتوں میں سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ آپ کو خلقتِ آدم علیہ السلام سے بہت پہلے خداوندِ متعال نے نورِ زہراء سلامُ اللہ علیہا کو خلق فرمایا۔

چنانچہ جنابِ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں:
میں نے اپنے چھٹے امام، امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ جنابِ فاطمہ سلامُ اللہ علیہا کو زہراء کیوں کہا جاتا ہے؟
تو آپ نے فرمایا:
"خداوندِ عالم نے انھیں اپنے نور سے خلق فرمایا، اور جب نورِ فاطمہ سلامُ اللہ علیہا کو اللہ نے خلق فرمایا تو اس نور سے سارا آسمان روشن و منوّر ہو گیا۔"

یہ نور اتنا روشن تھا کہ فرشتوں کی آنکھیں چکاچوند ہو گئیں۔ اس نور کو دیکھ کر فرشتے سجدہ ریز ہو گئے اور عرض کی:
"اے پالنے والے! یہ کیسا نور ہے جس سے ہماری آنکھیں چکاچوند ہو گئیں؟"

تو آوازِ قدرت آئی:
"یہ نور میرے نور سے ہے، جسے میں نے آسمان پر ٹھہرایا ہے۔ اور اس نور کو میں اپنے ایک نبی کی صُلب سے ظاہر کروں گا، جو تمام نبیوں میں سب سے زیادہ افضل و برتر ہوگا، اور اسی پر میں نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم کر دوں گا۔ مگر اسی نور سے میں نورِ ولایت کو ظاہر کروں گا، جو میرے امر کو قائم کریں گے، میرے حق کو واضح کریں گے اور لوگوں کو میری طرف بلائیں گے۔ اور میں اس نور کو اس وقت ظاہر کروں گا جب رسالت و نبوت کا سلسلہ بند کر دوں گا، وحیِ الٰہی کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا، تب یہ زمین پر میرے خلیفہ ہوں گے۔"

ظرفِ سیدہ سلامُ اللہ علیہا

یعنی خداوندِ متعال نے نورِ ولایت کی حفاظت کے لیے ظرفِ سیدہ کو منتخب کیا۔
ظرف کا کام ہے حفاظت کرنا، یعنی جو چیز اس ظرف میں رکھی جائے، وہ اُس کی حفاظت کرے۔ اور شے جتنی قیمتی ہو، ظرف کو اتنا ہی مضبوط ہونا چاہیے۔

مثلاً:
پانی بہت قیمتی چیز نہیں ہے، اس لیے اسے شیشے کے گلاس میں رکھتے ہیں۔
لیکن ہیرے جواہرات بہت قیمتی اور حسین چیزیں ہیں، اس لیے اُنہیں ایک خوبصورت اور مضبوط صندوق میں رکھا جاتا ہے۔

اب آپ غور کریں کہ جن انوارِ ولایت کی حفاظت کے لیے خداوندِ عالم نے جنابِ فاطمہ زہراء سلامُ اللہ علیہا کو ظرف بنایا، وہ ظرف کتنا مضبوط، حسین اور عظیم ہوگا!

یہ ظرف اتنا عظیم ہوگا کہ ایک لاکھ تیس ہزار (۱۳۲۰۰۰) انبیاء و مرسلین سے افضل و برتر ہوگا۔
اتنا محترم ہوگا کہ آخری رسول ﷺ — جو خدا کے بعد سب سے افضل، تمام انبیاء میں سب سے برتر، جن پر نبوت و رسالت کا اختتام ہوا، افضل المرسلین و خاتم المرسلین — اُن کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے نظر آئیں گے۔

یہ ظرف اتنا حسین ہوگا کہ حوریں جنہیں دیکھ کر شرمائیں، اور اتنا مضبوط و مستحکم ہوگا کہ نبوت و امامت کا بوجھ اس کے کاندھوں پر ہوگا۔

اور جنابِ فاطمہ زہراء سلامُ اللہ علیہا کو اپنی زندگی قربان کر کے اس کی حفاظت کرنی پڑی، تو آپ نے اپنی زندگی قربان کر دی۔
شہزادی نے یہی کیا — کہ آپ نے نہ صرف قربانی دے کر ولایت و رسالت کو بچایا، بلکہ خدا کی وحدانیت کو بھی محفوظ فرمایا۔

حفاظتِ توحید و رسالت

اگر ظالموں نے ولایت کو ختم کر دیا ہوتا تو رسالت بھی ختم ہو جاتی، اور اگر رسالت ختم ہو جاتی تو خدا کی وحدانیت بھی ختم ہو جاتی۔

جیسے پہلے آنے والے انبیاء نے اللہ کی وحدانیت کو لوگوں تک پہنچایا، مگر انبیاء کے جانے کے بعد ان کے ماننے والوں نے توحید کو بگاڑ کر شرک سے آلودہ کر دیا۔

لیکن جنابِ فاطمہ زہراء سلامُ اللہ علیہا نے اپنی قربانی سے نہ صرف ولایت و رسالت کو بچایا، بلکہ توحید کے چراغ کو ہمیشہ کے لیے روشن کر دیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہم جیسے کم علم اور کم فہم رکھنے والے، جنابِ زہرا سلامُ اللہ علیہا کی عظمت و منزلت پر کچھ لکھنے یا بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
بس مختصر میں یہ کہا جائے کہ معیارِ حق کیا ہے تو معیارِ حق فاطمہ زہرا سلامُ اللہ علیہا کی ذاتِ گرامی ہے۔
اگر کوئی پوچھے کہ "حق کہاں ہے؟" تو یہ دیکھو کہ فاطمہ کہاں ہیں۔
جہاں فاطمہ زہرا سلامُ اللہ علیہا ہوں گی، حق وہیں ہوگا۔

یاد رکھیے کہ مذہبِ تشیع میں چند ایسی خصوصیات ہیں جو کسی اور مذہب میں نہیں ملتیں۔
اور یہی خصوصیات ہمیں تمام مذاہب سے الگ بھی رکھتی ہیں، اور دوسری قوموں کو ہمارے مذہب سے متاثر بھی کرتی ہیں۔
وہ بھلے ہی ہمارے مذہب کو قبول نہ کریں، مگر یہ ضرور مانتے ہیں کہ اگر مسلمانوں میں کوئی صحیح فرقہ ہے تو وہ مذہبِ تشیع ہے۔

خصوصیاتِ مذہبِ تشیع:

پہلی خصوصیت:
ہم غدیری ہیں، یعنی غدیر کے ماننے والے۔
اور یہی وجہ ہے کہ شیعہ حضرات ہمیشہ منکرانِ غدیر کے زد پر رہتے ہیں۔

دوسری خصوصیت:
ہم عاشورہ کو مانتے ہیں، صرف مانتے ہی نہیں بلکہ دو مہینے آٹھ دن اسی یومِ عاشورہ کو تازہ رکھتے ہیں۔
اس طرح عزاداری کرتے ہیں گویا آج ہی روزِ عاشورہ ہے۔
دوسرے مسلمان ایامِ عاشورہ نہیں مناتے، مگر ہم اس دن کو دین و ایمان کی بقا کا دن سمجھتے ہیں۔

تیسری خصوصیت:
ہم علی علیہ السلام سے محبت کرتے ہیں،
اور ہم علی علیہ السلام کی محبت کے سلسلے میں کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے —
چاہے ہمیں قتل ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔
محبتِ اہلِ بیتؑ ہمارے لیے اتنی قیمتی شے ہے کہ اگر دنیا کی ساری دولت دے کر ہمیں کوئی خریدنا چاہے، تو خرید نہیں سکتا۔

ایک مرتبہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا:
"مولا! میں بہت پریشان اور تنگدست ہوں۔"

امام علیہ السلام نے فرمایا:
"تو غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔"

اس نے کہا:
"مولا! میں جھوٹ نہیں بول رہا، میں واقعی غریب ہوں۔"

امام نے فرمایا:
"تیرے پاس ایک بہت قیمتی چیز ہے، اس کے بعد بھی تو غربت کی شکایت کر رہا ہے؟"

اس نے پوچھا:
"مولا! وہ کیا چیز ہے جسے میں نہیں جانتا؟"

امام نے پوچھا:
"یہ بتا، تیرے دل میں ہماری محبت ہے؟"

اس نے کہا:
"مولا! بیشک، یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے؟"

امام نے فرمایا:
"اچھا، ہماری یہ محبت ہمیں واپس کر دے۔ بدلے میں جتنی قیمت چاہیے، لے لے۔"

یہ سن کر وہ شخص پریشان ہوگیا اور بولا:
"مولا! یہ کیسے ممکن ہے کہ میں درہم و دینار کے لیے آپ کی محبت کو فروخت کر دوں؟"

امام نے مسکرا کر فرمایا:
"اتنی قیمتی چیز رکھتے ہوئے تُو اپنے آپ کو غریب کہہ رہا ہے؟"

چوتھی خصوصیت:
ہم ایّامِ فاطمیہ مناتے ہیں۔
دنیا والوں کو یہ بتاتے ہیں کہ فاطمہ زہرا سلامُ اللہ علیہا — جو رسولِ خدا ﷺ کی اکلوتی بیٹی ہیں — وہ حق پر تھیں۔
اور جو اُن کے مخالف تھے، وہ باطل پر تھے، خواہ وہ اپنے وقت کے حاکم ہی کیوں نہ ہوں۔

ہم ایّامِ فاطمیہ میں جنابِ زہرا سلامُ اللہ علیہا پر پڑنے والی مصیبتوں کو بیان کرتے ہیں،
اور اُن کے قاتلوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔
اہلِ تشیع دشمنانِ زہرا سلامُ اللہ علیہا سے کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔
بلکہ جن لوگوں نے درِ سیدہ کو جلایا، اُن کے لیے اپنے دل میں ہلکا سا نرم گوشہ بھی نہیں رکھ سکتے۔

ہم ایّامِ فاطمیہ میں جنابِ زہرا سلامُ اللہ علیہا کے فضائل و مصائب کو بیان کر کے یہ واضح کرتے ہیں کہ:
رسول ﷺ کی بیٹی حق پر تھیں،
اور اُن کے دشمن — چاہے وہ "خلیفۂ رسول" ہی کیوں نہ کہلائے ہوں — باطل پر تھے۔
اور جو بھی ان دشمنانِ زہرا کے عمل سے راضی ہے، وہ بھی باطل پر ہے۔

کیونکہ رسولِ خدا ﷺ نے اپنی بیٹی کے بارے میں ارشاد فرمایا:

"جس نے فاطمہ کو ناراض کیا، اُس نے مجھے ناراض کیا،
اور جس نے مجھے ناراض کیا، اُس نے خدا کو ناراض کیا۔
اور خدا کو ناراض کرنے والا مسلمان نہیں ہو سکتا۔"
Social Media: Share