قالَ رسولُ اللہِ ﷺ: فاطِمَةُ بَضعَةٌ مِنی، فَمَن أغضَبَها أغضَبَنی۔ "فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے اُسے غضبناک کیا اُس نے مجھے غضبناک کیا۔"
پیغمبرِ اسلام ﷺ کی اس حدیثِ مبارکہ نے زہراء سلامُ اللہ علیہا کی فضیلتوں کے سمندر کو ایک کوزے میں سمو دیا ہے، کیونکہ اگر شہزادی حضورِ اکرم ﷺ کا ہی ایک ٹکڑا ہیں تو جتنے فضائل و مناقب حضور ﷺ میں ہیں، وہ سب کے سب (سواے رسالت و نبوت کے) جنابِ فاطمہ زہراء سلامُ اللہ علیہا میں موجود ہیں۔
اور خداوندِ متعال نے بھی اپنی کنیزِ خاص کو اپنی طرف سے بہت سے القابات سے نوازا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ القابات انسان کی صلاحیتوں کو دیکھ کر ہی عطا کیے جاتے ہیں۔ انسان کے اندر جتنے صفات و کمالات ہوتے ہیں، اُسی قدر اُسے خطابات ملتے ہیں۔ اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ خطاب دینے والا کتنی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ جس کے پاس جتنی صلاحیت ہوتی ہے، اپنی صلاحیت کے اعتبار سے وہ القاب عطا کرتا ہے۔
اب اگر خداوندِ عالم نے القابات عطا کیے ہیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہزادی فضائل و مناقب کے کس درجے پر فائز ہیں۔
نورِ زہراء سلامُ اللہ علیہا
جنابِ زہراء سلامُ اللہ علیہا کی فضیلتوں میں سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ آپ کو خلقتِ آدم علیہ السلام سے بہت پہلے خداوندِ متعال نے نورِ زہراء سلامُ اللہ علیہا کو خلق فرمایا۔
چنانچہ جنابِ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے اپنے چھٹے امام، امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ جنابِ فاطمہ سلامُ اللہ علیہا کو زہراء کیوں کہا جاتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: "خداوندِ عالم نے انھیں اپنے نور سے خلق فرمایا، اور جب نورِ فاطمہ سلامُ اللہ علیہا کو اللہ نے خلق فرمایا تو اس نور سے سارا آسمان روشن و منوّر ہو گیا۔"
یہ نور اتنا روشن تھا کہ فرشتوں کی آنکھیں چکاچوند ہو گئیں۔ اس نور کو دیکھ کر فرشتے سجدہ ریز ہو گئے اور عرض کی: "اے پالنے والے! یہ کیسا نور ہے جس سے ہماری آنکھیں چکاچوند ہو گئیں؟"
تو آوازِ قدرت آئی: "یہ نور میرے نور سے ہے، جسے میں نے آسمان پر ٹھہرایا ہے۔ اور اس نور کو میں اپنے ایک نبی کی صُلب سے ظاہر کروں گا، جو تمام نبیوں میں سب سے زیادہ افضل و برتر ہوگا، اور اسی پر میں نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم کر دوں گا۔ مگر اسی نور سے میں نورِ ولایت کو ظاہر کروں گا، جو میرے امر کو قائم کریں گے، میرے حق کو واضح کریں گے اور لوگوں کو میری طرف بلائیں گے۔ اور میں اس نور کو اس وقت ظاہر کروں گا جب رسالت و نبوت کا سلسلہ بند کر دوں گا، وحیِ الٰہی کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا، تب یہ زمین پر میرے خلیفہ ہوں گے۔"
ظرفِ سیدہ سلامُ اللہ علیہا
یعنی خداوندِ متعال نے نورِ ولایت کی حفاظت کے لیے ظرفِ سیدہ کو منتخب کیا۔ ظرف کا کام ہے حفاظت کرنا، یعنی جو چیز اس ظرف میں رکھی جائے، وہ اُس کی حفاظت کرے۔ اور شے جتنی قیمتی ہو، ظرف کو اتنا ہی مضبوط ہونا چاہیے۔
مثلاً: پانی بہت قیمتی چیز نہیں ہے، اس لیے اسے شیشے کے گلاس میں رکھتے ہیں۔ لیکن ہیرے جواہرات بہت قیمتی اور حسین چیزیں ہیں، اس لیے اُنہیں ایک خوبصورت اور مضبوط صندوق میں رکھا جاتا ہے۔
اب آپ غور کریں کہ جن انوارِ ولایت کی حفاظت کے لیے خداوندِ عالم نے جنابِ فاطمہ زہراء سلامُ اللہ علیہا کو ظرف بنایا، وہ ظرف کتنا مضبوط، حسین اور عظیم ہوگا!
یہ ظرف اتنا عظیم ہوگا کہ ایک لاکھ تیس ہزار (۱۳۲۰۰۰) انبیاء و مرسلین سے افضل و برتر ہوگا۔ اتنا محترم ہوگا کہ آخری رسول ﷺ — جو خدا کے بعد سب سے افضل، تمام انبیاء میں سب سے برتر، جن پر نبوت و رسالت کا اختتام ہوا، افضل المرسلین و خاتم المرسلین — اُن کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے نظر آئیں گے۔
یہ ظرف اتنا حسین ہوگا کہ حوریں جنہیں دیکھ کر شرمائیں، اور اتنا مضبوط و مستحکم ہوگا کہ نبوت و امامت کا بوجھ اس کے کاندھوں پر ہوگا۔
اور جنابِ فاطمہ زہراء سلامُ اللہ علیہا کو اپنی زندگی قربان کر کے اس کی حفاظت کرنی پڑی، تو آپ نے اپنی زندگی قربان کر دی۔ شہزادی نے یہی کیا — کہ آپ نے نہ صرف قربانی دے کر ولایت و رسالت کو بچایا، بلکہ خدا کی وحدانیت کو بھی محفوظ فرمایا۔
حفاظتِ توحید و رسالت
اگر ظالموں نے ولایت کو ختم کر دیا ہوتا تو رسالت بھی ختم ہو جاتی، اور اگر رسالت ختم ہو جاتی تو خدا کی وحدانیت بھی ختم ہو جاتی۔
جیسے پہلے آنے والے انبیاء نے اللہ کی وحدانیت کو لوگوں تک پہنچایا، مگر انبیاء کے جانے کے بعد ان کے ماننے والوں نے توحید کو بگاڑ کر شرک سے آلودہ کر دیا۔
لیکن جنابِ فاطمہ زہراء سلامُ اللہ علیہا نے اپنی قربانی سے نہ صرف ولایت و رسالت کو بچایا، بلکہ توحید کے چراغ کو ہمیشہ کے لیے روشن کر دیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم جیسے کم علم اور کم فہم رکھنے والے، جنابِ زہرا سلامُ اللہ علیہا کی عظمت و منزلت پر کچھ لکھنے یا بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ بس مختصر میں یہ کہا جائے کہ معیارِ حق کیا ہے تو معیارِ حق فاطمہ زہرا سلامُ اللہ علیہا کی ذاتِ گرامی ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ "حق کہاں ہے؟" تو یہ دیکھو کہ فاطمہ کہاں ہیں۔ جہاں فاطمہ زہرا سلامُ اللہ علیہا ہوں گی، حق وہیں ہوگا۔
یاد رکھیے کہ مذہبِ تشیع میں چند ایسی خصوصیات ہیں جو کسی اور مذہب میں نہیں ملتیں۔ اور یہی خصوصیات ہمیں تمام مذاہب سے الگ بھی رکھتی ہیں، اور دوسری قوموں کو ہمارے مذہب سے متاثر بھی کرتی ہیں۔ وہ بھلے ہی ہمارے مذہب کو قبول نہ کریں، مگر یہ ضرور مانتے ہیں کہ اگر مسلمانوں میں کوئی صحیح فرقہ ہے تو وہ مذہبِ تشیع ہے۔
خصوصیاتِ مذہبِ تشیع:
پہلی خصوصیت: ہم غدیری ہیں، یعنی غدیر کے ماننے والے۔ اور یہی وجہ ہے کہ شیعہ حضرات ہمیشہ منکرانِ غدیر کے زد پر رہتے ہیں۔
دوسری خصوصیت: ہم عاشورہ کو مانتے ہیں، صرف مانتے ہی نہیں بلکہ دو مہینے آٹھ دن اسی یومِ عاشورہ کو تازہ رکھتے ہیں۔ اس طرح عزاداری کرتے ہیں گویا آج ہی روزِ عاشورہ ہے۔ دوسرے مسلمان ایامِ عاشورہ نہیں مناتے، مگر ہم اس دن کو دین و ایمان کی بقا کا دن سمجھتے ہیں۔
تیسری خصوصیت: ہم علی علیہ السلام سے محبت کرتے ہیں، اور ہم علی علیہ السلام کی محبت کے سلسلے میں کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے — چاہے ہمیں قتل ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔ محبتِ اہلِ بیتؑ ہمارے لیے اتنی قیمتی شے ہے کہ اگر دنیا کی ساری دولت دے کر ہمیں کوئی خریدنا چاہے، تو خرید نہیں سکتا۔
ایک مرتبہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا: "مولا! میں بہت پریشان اور تنگدست ہوں۔"
امام علیہ السلام نے فرمایا: "تو غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔"
اس نے کہا: "مولا! میں جھوٹ نہیں بول رہا، میں واقعی غریب ہوں۔"
امام نے فرمایا: "تیرے پاس ایک بہت قیمتی چیز ہے، اس کے بعد بھی تو غربت کی شکایت کر رہا ہے؟"
اس نے پوچھا: "مولا! وہ کیا چیز ہے جسے میں نہیں جانتا؟"
امام نے پوچھا: "یہ بتا، تیرے دل میں ہماری محبت ہے؟"
اس نے کہا: "مولا! بیشک، یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے؟"
امام نے فرمایا: "اچھا، ہماری یہ محبت ہمیں واپس کر دے۔ بدلے میں جتنی قیمت چاہیے، لے لے۔"
یہ سن کر وہ شخص پریشان ہوگیا اور بولا: "مولا! یہ کیسے ممکن ہے کہ میں درہم و دینار کے لیے آپ کی محبت کو فروخت کر دوں؟"
امام نے مسکرا کر فرمایا: "اتنی قیمتی چیز رکھتے ہوئے تُو اپنے آپ کو غریب کہہ رہا ہے؟"
چوتھی خصوصیت: ہم ایّامِ فاطمیہ مناتے ہیں۔ دنیا والوں کو یہ بتاتے ہیں کہ فاطمہ زہرا سلامُ اللہ علیہا — جو رسولِ خدا ﷺ کی اکلوتی بیٹی ہیں — وہ حق پر تھیں۔ اور جو اُن کے مخالف تھے، وہ باطل پر تھے، خواہ وہ اپنے وقت کے حاکم ہی کیوں نہ ہوں۔
ہم ایّامِ فاطمیہ میں جنابِ زہرا سلامُ اللہ علیہا پر پڑنے والی مصیبتوں کو بیان کرتے ہیں، اور اُن کے قاتلوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اہلِ تشیع دشمنانِ زہرا سلامُ اللہ علیہا سے کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ بلکہ جن لوگوں نے درِ سیدہ کو جلایا، اُن کے لیے اپنے دل میں ہلکا سا نرم گوشہ بھی نہیں رکھ سکتے۔
ہم ایّامِ فاطمیہ میں جنابِ زہرا سلامُ اللہ علیہا کے فضائل و مصائب کو بیان کر کے یہ واضح کرتے ہیں کہ: رسول ﷺ کی بیٹی حق پر تھیں، اور اُن کے دشمن — چاہے وہ "خلیفۂ رسول" ہی کیوں نہ کہلائے ہوں — باطل پر تھے۔ اور جو بھی ان دشمنانِ زہرا کے عمل سے راضی ہے، وہ بھی باطل پر ہے۔
کیونکہ رسولِ خدا ﷺ نے اپنی بیٹی کے بارے میں ارشاد فرمایا:
"جس نے فاطمہ کو ناراض کیا، اُس نے مجھے ناراض کیا، اور جس نے مجھے ناراض کیا، اُس نے خدا کو ناراض کیا۔ اور خدا کو ناراض کرنے والا مسلمان نہیں ہو سکتا۔"
امام موسیٰ الکاظمؑ اہلِ بیتؑ کے ساتویں امام تھے اور صبر و ضبطِ نفس کی عظیم مثال سمجھے جاتے ہیں۔ آپؑ نے عباسی دور کے شدید مظالم کے باوجود عبادت، علم اور غریبوں کی خدمت کو اپنا مشن بنایا۔ قید و بند کی سختیوں میں بھی آپؑ نے صبر، اخلاق اور ذکرِ الٰہی کو ترک نہ کیا۔ 183 ہجری میں آپؑ کو شہید کر دیا گیا، مگر آپؑ کی زندگی ایمان، استقامت اور اللہ پر کامل بھروسے کا روشن نمونہ ہے۔
Imam Musa al-Kazim (ع), the seventh Imam of Ahl al-Bayt, was renowned for his patience, self-control, and deep devotion to Allah. Living under Abbasid oppression, he avoided political rebellion and focused on spiritual guidance, education, and helping the poor. Despite years of imprisonment, he remained steadfast in worship and transformed even his jailers through his character. He was martyred in 183 AH, leaving a lasting legacy of faith, patience, and moral strength.
امام جعفر الصادقؑ اہلِ بیتؑ کے چھٹے امام اور اسلامی تاریخ کے عظیم ترین علماء میں سے ایک تھے۔ آپؑ نے شدید سیاسی تبدیلیوں کے دور میں زندگی گزاری اور اقتدار حاصل کرنے کے بجائے مستند اسلامی علم کے تحفظ پر توجہ دی۔ اپنے وسیع تعلیمی حلقے کے ذریعے آپؑ نے فقہِ جعفری کی بنیاد رکھی اور بے شمار نامور علماء کو متاثر کیا۔ آپؑ اپنی صداقت، اعلیٰ اخلاق اور سخاوت کے لیے مشہور تھے اور اس بات پر زور دیتے تھے کہ ایمان کا عکس انسان کے کردار میں نظر آنا چاہیے۔ آپؑ 148 ہجری میں شہید ہوئے اور جنت البقیع میں مدفون ہیں، جہاں سے آپؑ کا علمی اور ہدایتی ورثہ آج تک زندہ ہے۔
Imam Ja‘far al-Sadiq (ع) was the sixth Imam of Ahl al-Bayt and one of the greatest scholars in Islamic history. He lived during major political change and focused on preserving authentic Islamic knowledge rather than seeking power. Through his vast teaching circle, he laid the foundation of Ja‘fari fiqh and influenced many renowned scholars. Known for his truthfulness, ethics, and generosity, he emphasized that faith must be reflected in character. He was martyred in 148 AH and is buried in Jannat al-Baqi‘, leaving a lasting legacy of knowledge and guidance.
حضرت فاطمہ الزہراءؑ نے اپنے خطبے کی ابتدا اللہ کی حمد و ثنا سے کی اور اس کی اس قدرت کا اعتراف کیا کہ اس نے انسانیت کو جہالت سے نکال کر حقیقی ایمان کی طرف راہنمائی فرمائی۔
آپؑ نے اللہ کی بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کیا جنہیں اس نے کامل حکمت کے ساتھ تقسیم فرمایا۔
آپؑ نے اس حقیقت پر زور دیا کہ خدا کو پہچاننے کی ابتدا انسان کی اپنی معرفت سے ہوتی ہے، کیونکہ اللہ اپنی نشانیوں کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔
آخر میں آپؑ نے اہلِ بیتؑ کے اس بے مثال مقام کو بیان کیا، جنہوں نے خدا کو اُس وقت پہچانا جب اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی، اور جن کی معرفت صرف خدا ہی پر قائم ہے۔
Lady Fatima al-Zahra (s.a.) began her sermon by praising Allah and acknowledging His power in guiding humanity from ignorance to true belief.
She expressed gratitude for the countless divine blessings distributed with perfect wisdom.
She emphasized that knowing God begins with knowing oneself, as He is recognized through His signs.
Finally, she highlighted the unique rank of Ahl al-Bayt, who knew God even when nothing existed except Him, relying solely on Him for their recognition.
The blessed life of Lady Fatima al-Zahra (peace be upon her) proves that an ideal Islamic personality’s leadership is not confined to battlefields or seats of governance. It can also reshape history through intellectual reasoning, economic justice, and political resistance.
Her character remains an eternal model for staying firm upon principles and standing for truth across all ages.
حضرت فاطمہ الزہراء (سلام اللہ علیہا) کی زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ ایک مثالی اسلامی رہنما صرف جنگوں یا حکومتی منصب سے تاریخ نہیں بناتا، بلکہ فکری رہنمائی، معاشی عدل اور سیاسی مزاحمت کے ذریعے بھی تاریخ کا رخ موڑ سکتا ہے۔
آپ کی ذات ہر دور میں حق پر ثابت قدم رہنے، اصولوں کے دفاع، اور ظلم کے مقابلے میں استقامت کی لازوال مثال ہے۔
یہ آرٹیکل ائمہ اطہار، خاص طور پر حضرت علی علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں 'خود جنونی' (Self-obsession) کے نقصانات پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ مرض ہماری عقل اور دل دونوں کو کیسے تباہ کر سکتا ہے. اسے ضرور پڑھیں اور اپنے پیاروں کے ساتھ شیئر کریں تاکہ ہم 'میں' کی قید سے نکل کر 'ہم' کی دنیا میں قدم رکھ سکیں۔
حضرت فاطمہ زہراء سلامُ اللہ علیہا، رسولِ اکرم ﷺ کا جزوِ جان اور نورِ الٰہی سے خلق کی گئی ہستی ہیں۔ آپ کی ذات میں وہ تمام کمالات و صفات جمع ہیں جو نبیِ اکرم ﷺ میں تھے، سوائے نبوت کے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نورِ ولایت کی محافظ اور انوارِ امامت و رسالت کا ظرف بنایا۔ آپ نے اپنی جان قربان کر کے ولایت، رسالت اور توحید کی حفاظت فرمائی، جس کے باعث اسلام کی اصل حقیقت ہمیشہ کے لیے محفوظ رہی۔
Lady Fatimah al-Zahra (peace be upon her), the beloved daughter of the Prophet Muhammad (peace be upon him and his progeny), was created from the Divine Light long before the creation of Adam. Her purity, strength, and virtues reflect those of the Prophet himself, except for prophethood. Allah chose her as the sacred vessel to carry and protect the light of Wilayah (Divine Guardianship). Through her immense sacrifice, she preserved Prophethood, Imamate, and the Oneness of Allah (Tawheed), ensuring that the true message of Islam remained alive for all generations.
دونوں کے سامنے بہت بڑی مشکلیں تھیں۔ دونوں کے مخالفین کے پاس تھی بہت بڑی طاقت اور بہت سارا پیسا، میڈیا، کارکن اور پروپگینڈا پھر ان مخالفین نے انکے مذہب کو بہانہ بناکر عام لوگوں کو انکے خلاف اور اپنے حمایت میں مبذول خاطر کرنے کی کوششیں کیں۔
اس مظمون میں تفصیلات بیان کی جاتی ہیں کی ایام فاطمیہ کیوں منعقد ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ سوالات جو بی بی کی شہادت اور حالات مصائب کے ذیل میں ذہنوں میں آتے ہیں ان کا خاطر خواہ جواب بھی عالمہ نے اپنے مطالعہ کے ضمن میں پیش کیا ہے۔
علیؑ نے کچھ کہنا چاہا،مگر الفاظ ساتھ نہ دے سکےصرف ایک آنسو گرااور زمین نے گواہی دی،کہ یہ آنسو،شرافت بشریت کا سب سے مقدس قطرہ ہے۔پھر خاموشی چھا گئی—ایسی خاموشی کہ فرشتوں کے پر بھی ساکت ہو گئے۔
اس مضمون میں ہمارے زمانے کے مشہور عالم "شیخ الاسلام" ڈاکٹر طاہر القادری کی لکھی ہوئی مشہور کتاب ((Fatima (PBUH) the Great Daughter of the Prophet Muhammad SAWW)) کی چند روایتوں کا ذکر ہے۔ اس مضمون میں صرف چند احادیث کو شامل کیا گیا ہے جس کا واحد مقصد تمام خواتین کی عظیم ترین سردار اور امت مسلمہ کے لیے ایک نمونہ شخصیت کو یاد کیا جاے۔
This article mentions a few narrations from the popular book (Fatima (PBUH) the Great Daughter of the Prophet Muhammad SAWW) written by a well known scholar of our time known as "Shikh ul Islam" Dr. Tahir ul Qadri. This article only includes just a few of the narrations for the sole purpose of remembering the greatest of all the women and a role model for the Muslim ummah.
امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کو ایک شخص روزانہ گالیاں دیتا تھا، مگر آپ ہمیشہ خاموش رہتے۔
ایک دن آپ خود اس کے کھیت پر گئے، نرمی سے بات کی اور اسے تین سو دینار عطا کیے۔
اس احسان سے وہ شخص شرمندہ ہوا اور امام (ع) کا مخلص دوست بن گیا۔
یہ واقعہ سکھاتا ہے کہ صبر، حلم اور بھلائی سے دشمنی بھی دوستی میں بدل سکتی ہے۔
Imam Musa al-Kazim (عليه السلام) was insulted by a man but responded with kindness instead of anger.
He visited the man’s farm, offered him money, and prayed for his success.
The man was moved by the Imam’s generosity and repented for his behavior.
This story teaches us that patience, forgiveness, and kindness can turn enemies into friends.
یہ ایمان افروز کہانی دو عظیم کرداروں کے عمل پر مبنی ہے. جنہوں نے اپنی سب سے محبوب چیز اللہ کی راہ میں قربان کر دی اور امام علی رضاؑ کا اپنے فرزند امام محمد تقیؑ کے نام خط، جو سخاوت، ایثار اور انسان دوستی کا درس دیتا ہے۔
خدا وند متعال تمام عالمین کا مبدی و معید ہے جس نے عالمین کو اور اس میں موجود ہر شئے اور لا شئے کو اپنی پہچان کی خاطر خلق فرمایا۔پھر وہی وقت ِ ازل سے وقت معلوم تک اپنی مخلوق کا پالنے والا اور رب ہے۔عالمِ اشیاء میں ہر مفروضہءِ ہست و بود اس کی قدرت کی شہادت دیتا ہے اور مشہود رب العالمین کی ذات ہے۔مگر پھر یہ کہ اس رب العالمین کی ذات مشاہدے سے بالا تر اور بعید ہے
اسلام میں جہیز لینا یا دینا نہ فرض ہے نہ سنت، بلکہ یہ سماجی رسم و رواج کا حصہ ہے۔ اگر جہیز میں فضول خرچی، دکھاوا یا ظلم شامل ہو تو یہ حرام ہے۔ معصومینؑ کی تعلیمات میں شادی میں سادگی اور ضروری اشیاء پر زور دیا گیا ہے۔ جناب فاطمہ زہراؑ کا جہیز نہایت مختصر اور سادہ تھا۔ شادی کا معیار مال و دولت نہیں بلکہ دینداری ہونا چاہیے۔ خلوص نیت سے دیا گیا ضروری جہیز ثواب کا باعث بن سکتا ہے۔
The issue of dowry has become a serious problem in today’s society, even though it is neither obligatory nor Sunnah in Islam. The dowry of Lady Fatima Zahra (peace be upon her) was simple and limited to basic necessities, teaching the value of modesty. Islam discourages wastefulness and showiness, as mentioned in the Qur’an. Imam Jafar al-Sadiq (peace be upon him) emphasized that piety, not wealth, should be the basis of marriage. Giving dowry with sincerity is permissible only if it causes no burden or display. The true spirit of marriage in Islam lies in simplicity, purity, and mutual respect.
Imam Jafar Sadiq (a.s.) heard about a man who was a follower of Allah and a man of great virtue. When the Imam (a.s.) saw him, he realized that he stole and gave things as charity. When the Imam (a.s.) asked, he argued that the reward for a bad deed is one, and the reward for a good deed is tenfold. The Imam (a.s.) said: “Allah accepts only the deeds of the pious.”
Both theft and giving charity without permission are sins. Goodness is that which is accompanied by piety and righteous intentions. This incident teaches that the real value of an action lies in the intention and piety, not in the outward worship.
Reference: Pand Tarikh Vol. 4, p. 141; Ganjinah Maarif Vol. 1, p. 310
امام جعفر صادقؑ نے ایک شخص کے بارے میں سنا کہ وہ اللہ والا اور کرامت والا ہے۔ امامؑ نے اسے دیکھا تو معلوم ہوا وہ چوری کر کے چیزیں صدقہ دیتا ہے۔ جب امامؑ نے پوچھا، تو اس نے دلیل دی کہ ایک برائی کا بدلہ ایک، اور نیکی کا اجر دس گنا ہے۔ امامؑ نے فرمایا: "اللہ صرف متقیوں کے اعمال قبول کرتا ہے۔"
چوری اور بغیر اجازت صدقہ دونوں گناہ ہیں۔ نیکی وہی ہے جو تقویٰ اور نیتِ صالح کے ساتھ ہو۔ یہ واقعہ سکھاتا ہے کہ عمل کی اصل قیمت نیت اور تقویٰ سے ہے، نہ کہ ظاہری عبادت سے۔
حوالہ: پند تاریخ ج ۴، ص ۱۴۱؛ گنجینه معارف ج ۱، ص ۳۱۰
Abu Amir’s story teaches that even those who await and prepare for a Prophet or Imam can be corrupted by ambition and desire for status. While his efforts guided many to faith, his personal greed turned him into an enemy. This serves as a lesson that sincerity and devotion must surpass worldly desires.
قوم یہود میں علم دین کی کمی اور دنیاوی خواہشات کی وجہ سے لوگ دین حق سے دور ہوگئے۔ ابو عامر نے شدت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کیا اور لوگوں کو ایمان کی طرف بلایا، لیکن عہدے کی لالچ نے اسے دشمن بنا دیا۔ اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ حتیٰ کہ وہی لوگ جو شدت سے امام کا انتظار کرتے ہیں، دنیاوی خواہشات کی وجہ سے دشمن بن سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ ہمارے ایمان کو آخر تک قائم رکھے اور ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کے مخلص جانثار بنائے۔
Just as a year is complete only when all its seasons have passed, a sibling relationship too is complete when it embraces every color, form, and emotion — joy and sorrow, laughter and silence, conflict and comfort. It keeps changing like the seasons, giving us what we need at every stage of life. To accept this bond with all its shades is to discover its true beauty. 🌿
بہن بھائیوں کا رشتہ زندگی کے چار موسموں کی طرح ہے — کبھی بہار کی معصومیت، کبھی گرمی کی تپش، کبھی خزاں کا سکون، اور کبھی سردیوں کی قربت۔ یہ رشتہ وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے مگر کبھی کمزور نہیں ہوتا۔ اس میں محبت، تکرار، سمجھوتہ اور ساتھ کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ جیسے موسم زندگی کو خوبصورت بناتے ہیں، ویسے ہی بہن بھائیوں کا رشتہ زندگی کو معنی دیتا ہے۔
یہ سب چھوٹی چھوٹی مگر دل سے کہی گئی باتیں
ایک رشتے کو زندہ، پُر محبت اور خوشحال بناتی ہیں۔
روحانی قربت کا راز یہی ہے کہ دلوں میں شکر، مسکراہٹ اور محبت زندہ رہے۔ 💞
کبھی کبھی انسان کو صرف خلوصِ نیت، ایثار اور انسانیت کے احترام کی ضرورت ہوتی ہے۔
باقی سب کچھ اللہ کے ذمے ہوتا ہے —
جو نیکی کے ایک چھوٹے قطرے کو رحمت کے سمندر میں بدل دیتا ہے۔ 💖
Sometimes, all a person needs is sincerity, compassion, and faith in humanity.
Everything else is in Allah’s hands —
Who turns a small act of kindness into an ocean of mercy. 💖
پانی پر چلنا، ہوا میں اُڑنا، یا زمین سمیٹ لینا — یہ سب ظاہری جلوے ہیں۔
اصل کرامت یہ ہے کہ انسان کا دل زندہ ہو جائے۔
جو دل کا مالک بن گیا، وہ حقیقت میں انسان بن گیا۔
Walking on water, flying in the air, or covering the earth — all these are external manifestations.
The real miracle is when the human heart comes alive.
He who becomes the owner of the heart, in reality, becomes a true human being.
Imam Muhammad Baqir (a.s.) was a great Islamic scholar and the fifth Imam of the Ahl al-Bayt, renowned for reviving the true teachings of Islam.
He excelled in Qur’anic commentary, jurisprudence, hadith, and theological debates, offering clear rational proofs for core beliefs.
Through hundreds of students, including Imam Ja‘far al-Sadiq, his vast knowledge spread across generations.
For his unmatched scholarship, he is honored as “Baqir al-Uloom,” the deep ocean of knowledge.
امام محمد باقرؑ علیہ السّلام پانچویں امام اور علم و حکمت کے درخشاں ستارے تھے، جنہوں نے تفسیرِ قرآن، فقہ، حدیث اور علمُ الکلام میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔
آپ نے قرآن کے باطنی معانی کو واضح کیا اور عقائدِ اسلام کی مضبوط عقلی بنیادیں فراہم کیں۔
آپ کے علمی حلقے نے سینکڑوں شاگرد پیدا کیے، جنہوں نے آپ کا علم آگے پہنچایا۔
انہی خدمات کے باعث آپ کو "باقر العلوم" یعنی علوم کا گہرا سمندر کہا جاتا ہے۔
یہ تحریر وضو کے باطنی راز کو بیان کرتی ہے کہ یہ صرف جسمانی صفائی نہیں بلکہ روحانی طہارت کا عہد ہے۔ چہرہ دھونا گناہوں سے پاکیزگی، ہاتھ دھونا نیکیوں کی نیت، سر کا مسح غلط خیالات سے دوری، اور پاؤں کا مسح برائی سے بچنے کی علامت ہے۔ وضو دراصل ایک عہد ہے کہ انسان اپنی زندگی کو گناہوں سے پاک کر کے صرف اللہ کی رضا کے لیے گزارے۔
Wudu is not only a physical purification but also a spiritual pledge. Washing the face, hands, wiping the head, and feet each symbolize cleansing past sins and dedicating one’s actions, thoughts, and steps to Allah. It is a reminder that every part of the body should serve only righteousness and divine obedience.
This passage highlights Imam Jafar Sadiq’s (AS) teaching that the loss of scholars means the loss of true knowledge. It stresses that today’s opposition to Marja‘yah by some youth is a grave misfortune, as the survival and dignity of Shia Islam have always depended on the sacrifices and leadership of scholars. In the period of occultation, only the Marja‘s are entrusted with protecting the divine religion and guiding the followers of the Imam (AS) on the true path.
یہ متن اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ آخر زمانے میں علم کا اٹھ جانا علماء کی وفات کے سبب ہوگا، اور عالم سے دشمنی دراصل علم سے دشمنی ہے۔ آج کے دور میں مرجعیت کے خلاف سازشیں اور نوجوانوں کی غلط فہمیاں ایک بڑی بدبختی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبِ تشیع کی بقا اور سربلندی صرف مراجعِ کرام کی قربانیوں اور قیادت کی وجہ سے ہے، جو زمانۂ غیبت میں دینِ خدا کے حقیقی محافظ ہیں۔
یہ ایک تفصیلی تحریر ہے جو امام مہدی (عج) کے حقیقی انتظار کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس میں کوفہ والوں کی مثال دی گئی ہے جنہوں نے پہلے امام حسین (ع) کو خطوط لکھ کر بلایا لیکن بعد میں ان کے مخالف ہوگئے۔ تحریر کے مطابق، امام مہدی (عج) کا ظہور ہونے پر ان کے چاہنے والوں سے ہی ان کی پہلی جنگ ہوگی، کیونکہ امام کا انصاف بہت سے لوگوں کی خواہشات کے خلاف ہوگا۔ اس کی ایک بڑی وجہ دینی علم کی کمی اور دنیاوی مفادات کی محبت ہوگی، جس سے لوگ امام (عج) کے مخالف ہو سکتے ہیں۔
This passage highlights that true loyalty to the Imam (a.s.) is tested when justice is established, as many so-called lovers may oppose him if decisions go against their desires. The example of Kufa shows how people invited Imam Hussain (a.s.) but later betrayed him. Imam Ja’far Sadiq (a.s.) warned that the first opposition to the awaited Imam (a.s.) will come from his own followers. Hence, believers must strengthen religious knowledge and purify actions so they do not become enemies of their awaited savior.
یہ حدیث امام علیؑ کے بے مثال مقام و منزلت کو بیان کرتی ہے کہ اگر نبی اکرم ﷺ کو امت کے غلو میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو آپؑ کی شان کو اس قدر بلند فرماتے کہ لوگ آپ کے قدموں کی خاک کو بھی تبرک و شفا کے طور پر لیتے۔ اس سے علیؑ کی عظمت بھی ظاہر ہوتی ہے اور نبی ﷺ کی حکمت بھی کہ امت کو شرک و گمراہی سے بچایا۔
This hadith shows the extraordinary rank of Imam Ali (عليه السلام), such that people would have sought blessings even from the dust under his feet. The Prophet ﷺ, however, withheld openly declaring this level of praise, fearing people might exaggerate and elevate Ali as Christians did with Jesus (عليه السلام). It reflects both Ali’s unmatched dignity and the Prophet’s wisdom in protecting the Ummah from deviation.
جنسِ مخالف کو دیکھ کر لطف اندوز ہونا وقتی خوشی دیتا ہے مگر انجام افسردگی، ناکام شادی، عبادت سے غفلت، گھریلو تنازعات، عزت کی کمی، ایمان کی کمزوری اور گناہ کی طرف مائل ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔
🔑 اسلام کا واضح پیغام ہے: اپنی نگاہوں کی حفاظت کرو۔
Looking at the opposite sex with desire leads to many harms: it causes inner restlessness, blind love, failed marriages, neglect of worship, conflicts at home, loss of respect, weakening of faith, and falling into sin. Islam teaches that the solution is simple — protect your eyes.
مگر جب وہ رسول ص آگیے تو وہی یہودی جو اتنی مدت سے انتظار کررہے تھے وہی رسول ص کی دشمن ہو گیے۔ جن اولادوں کو طاقتور سمجھکر اسکی حفاظت کرتے رہے کہ وہ رسول کا ساتھ دینگے وہی اولادیں رسول خدا کے مقابلے پر آگیں جیسے مرحب و عنتر وغیرہ ۔۔۔۔۔
حضرت ام کلثوم ایک نہایت صابر، متقی اور پرہیزگار خاتون تھیں۔ آپ کی زندگی سادگی، دین کی پاسداری اور مصائب پر صبر و استقامت کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ اگرچہ آپ کی وفات کے سال اور مقام کے بارے میں تاریخی روایات مختلف ہیں،
البتہ آل محمد صل اللہ علیہ و الہ و سلم کی حکومت کا زمانہ ابھی نہی آیا ہے اور ہمیں انتظار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس انتظار کو افضل الا عمال قرار دیا گیا ہے اور ہمیں مسرت بخش امیدوں کا سہارا دیکر خوش رکھا گیا ہے۔
جناب ام رباب بنت امرؤ القیس،
امام حسین علیہ السلام کی ایک بلند مرتبہ زوجہ تھیں۔ وہ ایک شفیق اور صابر خاتون تھیں جن کا تعلق ایک معزز عرب قبیلے سے تھا۔ آپ کی حیات اور کربلا میں آپ کے کردار کے اہم نکات درج ذیل ہیں: