LogoDars e Mahdi ATFS

ہم ایام فاطمیہ کیوں مناتے ہیں؟

Burning the door of Bibi Fatima SA
کاظمہ عباس | (Kazma Abbas)
ذاکرہ کاظمہ عباس
Zakerah Kazma Abbas

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

السلام علیک یا فاطمتہ الزہرا ۔السلام علیک صاحب العصر والزمان, عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ۔

ہم ایام فاطمیہ کیوں مناتے ہیں؟ اور کیا ایام فاطمیہ پہلے بھی منعقد کیا جاتا رہا؟؟؟

ایام فاطمیہ آج سے تقریباً پچاس برس پہلے بہت زیادہ نہیں منایا جاتا تھا، مگر ایسا نہیں ہے کہ بالکل لوگ نہیں مناتے تھے۔ ایران وغیرہ میں ایام فاطمیہ کے موقعہ پر مجلسیں ہوتی تھیں جلوس بھی نکلتے تھے۔ ہمارے علماء جلوس میں ننگے پیر شرکت کرتے تھے۔ البتہ اسکی بہت شہرت نہیں ہو ئی کیوں کہ اس وقت میڈیا نہیں تھا۔ اسلیے یہ مناسبت اتنی زیادہ مشہور نہی ہو پائی جتنی امام حسینؑ کے ایام معاشرہ میں معروف ہوئے۔

ہاں مگر، گزشتہ تمام علماے کرام کی یہ تاکید رہی کہ ایام فاطمیہ کو اسی طرح منایا جاے جیسے عاشور ہ منایا جاتا ہے۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا تاکہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے قاتلوں کے چہرے پر پڑی ہوئی مسلمان ہونے کئ نقاب کو اتارا جا سکے اور دنیا والوں کو معلوم ہو جائے کہ جو اسلام کا چولا پہن کر خلیفہ رسول بنا ہے اسکا نام کھل کر دنیا والوں کے سامنے پیش کیا جاسکے۔

ایام فاطمیہ ہی ایسا ذریعہ جسکے ذریعے حقیقت لوگوں کے سامنے آسکتی ہے جس طرح سے امام حسین ع کی عزاداری کے ذریعے قاتلان امام حسین ع کو بے نقاب کیا گیا اور آج ہر قوم کو معلوم ہے کہ یزید لعین اور اسکے ساتھی امام حسین علیہ السلام کے قاتل ہیں۔

ہر انصاف پسند یزید بن معاویہ سے نفرت کرتا ہے اسی طرح جب ایام فاطمیہ کے دنوں میں شہزادی پر ظلم ڈھانے والوں کا زیادہ سے زیادہ تذکرہ ہوگا، لوگوں کے سامنے رسول ص کی بیٹی کے فضائل و مناقب اور ان پر جو ظلم کیا گیا اسکا ہر طرف چرچا ہوگا تو حقیقت لوگوں کے سامنے کھل کر آجائیگی۔ لوگوں کے اندر سچ جاننے کی جستجو پیدا ہوگی لوگ سوچنے پر مجبور ہو جاینگے کہ آخر وہ کون سی وجہ تھی کہ رسول ص کی بیٹی کو بعد رسول دربار خلافت میں جانا پڑا اور جب انھوں نے اپنے حق کا مطالبہ کیا تو خلیفہ وقت نے انکا حق دینے سے انکار کردیا۔ صرف انکار ہی نہیں کیا بلکہ جسکے صداقت کی گواہی سورۃ نمبر 3 اٰل عمران۔ آیت نمبر 61 جسے آیت مباہلہ کہتے ہیں گواہی دےرہی ہے۔

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا۟ نَدْعُ أَبْنَآءَنَا وَأَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ ٱللَّهِ عَلَى ٱلْكَـٰذِبِينَ

انکو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور انکو دربار سے جھٹلا کر بغیر انکا حق لوٹائے، دربار میں کھڑا رکھا گیا اور خالی ہاتھ واپس کر دیا گیا۔ ۔ کیوں کہ حاکم وقت یہ جانتا تھا کہ اگر انکو سچا مانکر انکو باغ فدک واپس دے دیا جاےگا تو پھر یہ خلافت کا دعویٰ کرینگی اور خلافت بھی واپس کرنی پڑے گی۔

 پھر ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گیے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا نے صرف باغ فدک اور خلافت کے لیے یہ سارے مظالم برداشت کیے؟

نہی بلکہ دشمنوں کا پورا منصوبہ یہ تھا کہ اس بہانے سے ولایت و امامت کے سلسلے ہی کو ختم کردیا جاے۔ یعنی الٰہی نمایندگی ہی کا خاتمہ کر دیا جاے۔

چنانچہ شہزادی نے ساری مصیبتوں کو برداشت کرکیا مگر ولایت کو بچایا اور صرف ولایت ہی کو نہیں بلکہ رسول صل اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کی رسالت اور خدا کی وحدانیت کو قیامت کے لیے محفوظ کیا ہے۔ا س لیے ضروری ہے کہ ایام فاطمیہ کو اسی طرح باقی رکھا جائے، جیسے عزاداری امام حسین ع کو باقی رکھا گیا ہے۔

چونکہ اٹھایس صفر کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوے اسکے فوراََ بعد ہی سے شہزادی پر ظلم وستم کا سلسلہ شروع ہوگیا اور شہزادی جب تک زندہ رہیں تڑپتی رہیں۔ آپکی پسلیاں توڑدی گیں تھیں آپ کو رونے سے روکا جاتا رہا اور بہت سے غم تھے جسے شہزادی دوچار تھیں۔ اس لیے ان ایام میں مجلسیں برپا کی جاتی ہیں۔

علاوہ از ایں، دو روایتوں سے آپکی شہادت کی تاریخ وارد ہوتی ہیں، ایک ١٣ جمادی الاول دوسری ٣ جمادی الثانی، ایک روایت کے مطابق آپ سلام اللہ علیہا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعد پچہتر دن زندہ رہیں اور دوسری روایت کی مطابق 9٥ دن زندہ رہیں۔اسی لیے تیرہ جمادی الاول سے تین جمادی الثانی تک کو ایام فاطمیہ کہا جاتا ہے۔

تاریخ میں تضاد اسلیے ہوگا کہ ظالموں نے اس واقعہ کو چھپا نے کی کوشش میں روایتوں میں تبدیلیاں کی ہیں۔ آپ سلام اللہ علیہا کے علاوہ بھی دیگر معصوموں کی ولادت و شہادت کی تاریخوں میں تضاد پایا جاتا ہے۔ جیسے خود رسول خدا ص کی بھی ولادت و شہادت میں فرق پایا جاتا ہے۔ مگر جاننا ضروری نہیں ہے کہ تاریخوں میں فرق کیوں ہے۔ البتہ، یہ ضروری ہے کہ ان تاریخوں میں ذکر اہلبیت علیہم السلام ہو اور اسی کی ساتھ دین کی باتیں بھی لوگوں تک پہونچتی رہیں۔

ایک اور سوال اٹھتا ہے۔۔۔ کہ اتنی مصیبتیں شہزادی پر ڈھا ئی گیں اور مولاے کاینات مو جو د تھے، انھوں نے برداشت کیسے کیا؟ اسکا واضح جواب یہ ہے کہ بہت معصومین علیہم السلام کی حدیثیں موجود ہیں کی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولا کو قبل وصال تمام حادثات جو آپ صل للہ کی شہادت کے بعد رونما ہونے والے تھے انکی خبر مولا کو پہلے ہی دے دی تھی، کہ میرے بعد آپ کے سامنے یہ سارے و اقعات پیش ئیں گے۔ مگر آپ کو صبر کرنا ہو گا اور مولائے کائیناتؑ نے حضور سے وعدہ کیا تھا کہ اگر خدا اور اسکے رسول کی مرضی یہی ہے کہ میں صبر کروں تو میں ضرور صبر کروں گا۔

دشمن بھی یہ جانتا تھا کہ میں کچھ بھی ظلم کروں علی نے وعدہ کیا ہے وہ وعدہ نہیں توڑیں گے۔ وما علینا الاالبلاغ۔۔۔

اللہم العن قاتلیک وضاربیک وظالمیک و غاصبی حقک یا مولاتی یا فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا ۔

Social Media: Share