LogoDars e Mahdi ATFS

خلقِ خدا کیلئے باعث رنج نہ بنو

خلقِ خدا کیلئے باعث رنج نا بنو
Author Sayed Minhal in blue shirt
سید منہال
Sayed Minhal

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، میرے مکرم و محترم حاضرینِ کرام۔

آج میں آپ کے گوش گزار ایک ایسی حکمت بھری حکایت کرنا چاہتا ہوں، جو ہماری تابندہ اسلامی تاریخ کے اوراق سے مزین ہے اور باہمی انسانی سلوک و اخلاق کے باب میں ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ واقعہ اس امر کی یاد دہانی ہے کہ ہمارا دین محض خالق و مخلوق کے انفرادی رشتے تک محدود نہیں، بلکہ اس کی اساس میں یہ بھی پنہاں ہے کہ ہم اپنے گرد و پیش بسنے والے انسانوں سے کس حُسنِ سلوک سے پیش آتے ہیں۔

تصور کیجیے، مدینہ منورہ کی ایک انصاری شخصیت کا، جن کا مسکن ایک باغ کے اندر واقع تھا، جہاں وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پرسکون زندگی بسر کر رہے تھے۔ اسی باغ کے ایک گوشے میں، مشہور صحابی حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کا ایک کھجور کا درخت ملکیت تھا۔ فطری طور پر، حضرت سمرہ اپنے اس درخت کی پرداخت، آبیاری یا پھل حاصل کرنے کی غرض سے باغ میں تشریف لاتے۔ اُس دور کے رواج اور اسلامی اصولوں کے تحت، انہیں اپنے درخت تک رسائی کا حق بھی حاصل تھا۔

لیکن معاملہ کچھ یوں تھا کہ حضرت سمرہ، اُس انصاری بزرگ کے گھر کے حصے میں قدرے بے تکلفی اور عدم احتیاط سے داخل ہو جایا کرتے تھے۔ ان کی اس بے ساختہ آمد و رفت میں، گھر کے اندر موجود مستورات اور دیگر اشیاء پر بھی نگاہ پڑ جاتی، جو صاحبِ خانہ اور ان کے اہل و عیال کے لیے باعثِ تکلیف و حجاب بنتا تھا۔

ایک روز، اُس انصاری گھر کے مالک نے نہایت ادب سے حضرت سمرہ سے گزارش کی کہ وہ ان کے گھر کے احاطے میں داخل ہوتے وقت قدرے احتیاط برتا کریں، اور بہتر ہو کہ پہلے سے اطلاع دے دیا کریں یا اجازت طلب کر لیا کریں تاکہ اہلِ خانہ اپنی پردہ پوشی کا اہتمام کر سکیں۔ تاہم، حضرت سمرہ نے ان کی اس معقول درخواست کو درخورِ اعتناء نہ سمجھا۔

جب صورتحال نے کوئی بہتری نہ دکھائی تو وہ انصاری بزرگ، بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور اپنی پریشانی عرض کی: "یا رسول اللہ! سمرہ میرے گھر میں بغیر اجازت اور اطلاع کے داخل ہو جاتے ہیں، جس سے میرے گھر والوں کو شدید ناگواری اور تکلیف ہوتی ہے۔ آپ ان سے ارشاد فرمائیں کہ وہ داخل ہونے سے قبل آگاہ کر دیا کریں تاکہ میرے اہل و عیال ان کی نگاہوں سے محفوظ رہ سکیں۔"

رحمت اللعالمین، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سمرہ کو طلب فرمایا اور ان سے مخاطب ہوئے: "اے سمرہ! تمہارے اس بھائی کو تم سے یہ شکایت ہے کہ تم بغیر پیشگی اطلاع کے ان کے گھر میں داخل ہو جاتے ہو، جس سے ان کے اہلِ خانہ کو ایسی حالت میں دیکھ لیتے ہو جو انہیں ناپسند ہے۔ آئندہ جب بھی ان کے مکان میں داخل ہو، تو پہلے آواز دے کر یا کسی بھی طریقے سے اپنی آمد کی انہیں خبر کر دیا کرو۔ یاد رکھو! کسی کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہونا چاہیے۔"

مگر حضرت سمرہ اس ہدایتِ نبوی پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔

تب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک متبادل تجویز پیش فرمائی: "اچھا، اگر تمہیں یہ منظور نہیں، تو اپنا یہ درخت مجھے فروخت کر دو۔" حضرت سمرہ اس پر بھی راضی نہ ہوئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درخت کی قیمت میں مزید اضافہ فرمایا، لیکن وہ اپنی بات پر اڑے رہے اور کسی بھی قیمت پر درخت بیچنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اگر تم یہ درخت دے دو، تو اس کے بدلے تمہیں جنت میں ایک سرسبز و شاداب، پھل دار درخت کی بشارت دیتا ہوں۔" اس عظیم پیشکش کے باوجود، حضرت سمرہ اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے اور یہی اصرار کرتے رہے کہ نہ وہ درخت فروخت کریں گے اور نہ ہی باغ میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب کریں گے۔

جب معاملہ اس نہج پر پہنچا، تو رسولِ کائنات، منبعِ عدل و انصاف، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ کن انداز میں ارشاد فرمایا: "اے سمرہ! تم ایک ضرر رساں شخص ہو، اور یاد رکھو، دینِ اسلام میں نہ کسی کو دانستہ نقصان پہنچانے کی اجازت ہے اور نہ ہی نقصان کے جواب میں نقصان کرنے کی۔

وانك رجل مضار ولا ضرر ولا ضرار ...ا
و سائل الشیعہ ، جلد 3، کتاب الشفقه
باب ، عدم جواز الاضرار با مسلم صفحہ 329، حدیث ،

" پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس انصاری صحابی کی جانب رخِ انور کرتے ہوئے فرمایا: "جاؤ، اور ان کے درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر باہر پھینک دو۔"

چنانچہ، فرمانِ نبوی کی فوری تعمیل کی گئی۔ اس کے بعد، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سمرہ سے فرمایا: "اب یہ تمہارا درخت ہے، جاؤ، جہاں تمہارا جی چاہے، اسے کاشت کر لو۔"

عزیزانِ من! اس واقعے میں ہمارے لیے جو عظیم ترین اخلاقی درس اور حکمت کا جوہر پوشیدہ ہے، وہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان جامع کلمات میں جھلکتا ہے: "لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ" – یعنی نہ تو کسی کو ابتدائی طور پر کوئی گزند پہنچایا جائے اور نہ ہی کسی کے پہنچائے ہوئے نقصان کا بدلہ نقصان سے دیا جائے۔ ہمارے انفرادی حقوق، حتیٰ کہ حقِ ملکیت بھی، اس وقت محدود ہو جاتے ہیں جب ان کا استعمال دوسروں کے لیے اذیت، تکلیف یا بنیادی انسانی وقار کی پامالی کا سبب بنے۔ ہمارا ایمان ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم دوسروں کے جذبات کا پاس رکھیں، ان کے آرام و سکون کو مقدم جانیں، اور اپنے جائز حقوق کے استعمال میں بھی اس حد تک نہ جائیں کہ وہ دوسروں کی راحت و آسودگی چھین لیں۔

یہ حکایت ہمیں ایک لازوال اصول سکھاتی ہے کہ ضرر رسانی سے اجتناب اور معاشرے کے دیگر افراد کے حقوق اور احساسات کا احترام، ہمارے اخلاقی نظام کی بنیاد ہیں۔ یہ اصول آج بھی اسی طرح زندہ و تابندہ ہے، جس طرح چودہ صدیاں قبل تھا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ وما علینا الا البلاغ۔ جزاکم اللہ خیراً۔

Image by Sharon from Pixabay
Social Media: Share